تُو خالق ہے ہر شے کا یا حّیُ یا قیّوم

تُو خالق ہے ہر شے کا یا حّیُ یا قیّوم

ہر پل تیرا رنگ نیا یا حیُّ یا قیّوم


تو اوّل بھی آخر بھی تو ظاہر تو باطن

سب میں رچ کر سب سے جدا یا حیُّ یا قیّوم


تو ہے نورِ ارض و سما یا قادر یا ہادی

نور اپنے سے راہ دکھا یا حیُّ یا قیّوم


نور کہ جیسے طاق کے اندر جلتا چراغ

یا اک تارا ہیرے سا یا حیُّ یا قیّوم


تو قدوس ہے تو مومن ہے تو رحمٰن و رحیم

احسن تیرے سب اسما یا حیُّ یا قیّوم


پیدا کر کے انساں کو دی قرآں کی تعلیم

بخشے تو نے نطق و نوا یا حیُّ یا قیّوم


تونے فلک کو رفعت دی اور قائم کی میزان

تو ہی ملیکِ روزِ جزا یا حیُّ یا قیّوم


تو نے زمیں کا فرش بچھا کر اس کو کیا سر سبز

تو ہی کفیلِ نشونما یا حیُّ یا قیّوم


وصف کہاں تک لکھے تیرے شاعر ہیچمدان

کیا تائب کیا اس کی ثنا یا حیُّ یا قیّوم

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

جو اسمِ ذات ہویدا ہوا سرِ قرطاس

اُٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکارتا ہوں میں

حمد کب آدمی کے بس میں ہے

زباں پر ہے نام اُس حیات آفریں کا

الٰہی شاد ہوں میں تیرے آگے ہاتھ پھیلاکر

پرچمِ حمد اڑاتا ہوں میں

زمانے پہ چھائی ہے رحمت خدا کی

ربِ کعبہ! کھول دے سینہ مرا

یا رب! ملی مجھے یہ نوا تیرے فضل سے

دیں سکون تیرے نام یا عزیزُ یا سلام