خواجہء خواجگاں کی نظر ہوگئی

خواجہء خواجگاں کی نظر ہوگئی میری قسمت تھی بگڑی ہوئی بن گئی

فیض اجمیر سے مجھ کو اتنا ملا چشتیت میرے دل کی کلی بن گئی


جب سے خواجہ کو اپنایا دل نے مرے میری روحانیت کو سکوں آگیا

تن بدن میں نئی تازگی بھر گئی میری دنیا مجسم خوشی بن گئی


چھ رجب کو ملا ایسا عالی شرف نامِ خواجہ کی دھومیں مچیں ہر طرف

ہند کے شہر اجمیر کی ہر گلی گلشنِ خواجہ ہند الولی بن گئی


تاجدارِ ولایت ہیں خواجہ پیا سارے ولیوں کو ان کے ہی در سے ملا

بابِ جنت کو کچھ ایسی شہرت ملی وہ جگہ ہی نبی کی گلی بن گئی


وہ غریبوں فقیروں کے فریاد رس خواجہء خواجگاں دینِ حق کے معیں

ہند بھر میں انہی کا ہے سکہ رواں ان کی روحانیت عالمی بن گئی


نظمی تیرے قلم کو ہے فیضِ رضا شاہِ برکت کا تجھ پر کرم یہ ہوا

تیرے ہر شعر میں جذب عشق و وفا شاعری عاشقی عاشقی بن گئی

کتاب کا نام :- بعد از خدا

جز اشک نہیں کچھ بھی اب قابلِ نذرانہ

امرت امرت گیت لئے جب برکھا موتی رولے

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس

ہم میں تشریف لائے وہ شاہِ اُمم

دل میں ہے خیال رخ نیکوئے محمدﷺ

آستاں ہے یہ کس شاہِ ذیشان کا مرحبا مرحبا

کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ

اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا

اُنؐ کی نبیوں میں پہچان سب سے الگ

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں