ہو کرم کی نظر آئے ہیں تیرے در باوا گنج شکر باوا گنج شکر

ہو کرم کی نظر آئے ہیں تیرے در باوا گنج شکر باوا گنج شکر

خم ہے در پہ ترے ہم غلاموں کا سر باوا گنج شکر باوا گنج شکر


مرکز اولیاء تیرا شہر حسن مہکا مہکا رہے چشتیوں کا چمن

خواجہ ہند الولی کے اے نور نظر باوا گنج شکر باوا گنج شکر


در پہ بیٹھی ہوں میں بھی تیرے شام کی بھیک جاؤں گی لیکر تیرے نام کی

ترا جودوسخا میں ہے مشہور گھر باوا گنج شکر باوا گنج شکر


ہم سن کر تیرا آئے ہیں دور سے لاج رکھنا ہماری خدا کے لیے

اے حاجت روا اے مرے چارہ گر باوا گنج شکر باوا گنج شکر


اپنے صابر کا صدقہ کرو رحمتیں رنگ دو صابری رنگ میں اب ہمیں

شہاب الدین خواجہ چشت کے نام پر باوا گنج شکر باوا گنج شکر


غم کے ماروں کو خوشیوں کی دولت ملے باب جنت کے صدقے میں جنت ملے

حشر تک جگمگائے تمہارا نگر باوا گنج شکر باوا گنج شکر


گیت گاتا تمہارے نیازی رہے چاہے روٹھے زمانہ تو راضی رہے

ہے دُعا تیرے منگتے کی شام و سحر باوا گنج شکر باوا گنج شکر

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

یا علی مرتضی مولا مشکل کشا جس پر چشم کرم آپ کی ہو گئی

عاشق مصطفے شوق سے تو سدا گیت سرکار بطحا کے گاتا رہے

سارے ولی بھلی وبھلی میراں جیہا کوئی نہیں

ہجویر کی سرکار سا دیکھا نہیں کوئی

شان کیا تیری خدا نے ہے بڑھائی خواجہ

یاد میں تیری جانِ جاں ہر کوئی اشکبار ہے

یا حسین ابنِ حیدر سخی سوہنیاں تیری جرات توں سو سو سلام آکھناں

کہناں لفظاں نال بیان کراں سر سید دے جو بیتی اے

چنگیاں نے شاہاں کولوں میراں دیاں گولیاں

مہا راج غریب نواز کب گھر آؤ گئے