جبر و صبر کے مناظرے کا نام کربلا

جبر و صبر کے مناظرے کا نام کربلا

افتتاح، جنگ بدر، اختتام ، کربلا


تیرگی ہوئی تو خون کے چراغ جل اٹھے

لوحِ خاک پر نوشتہ امام کربلا


فرض کی ترازوؤں میں تولتی ہے فیصلے

پوچھتی نہیں عدالتوں کے دام کربلا


ایک انقلاب اک سفر اک آگہی حسین

اک چراغ ایک موڑ اک پیام کربلا


سینکڑوں برس سے اپنے سر میں خاک ڈال کر

بھیجتی ہے ہر شہیدِ پر سلام کربلا


لڑ رہی ہیں ظالموں سے آج بھی صداقتیں

آج بھی ہے زندگی سے ہمکلام کربلا


جب نواسہء رسول تیغ کی طرح چلے

بن گئی خدا کے حکم سے نیام کر بلا


خوں بہا مظفر آج تک ادا نہ کرسکی

دے گئی غمِ محرمّ الحرام کربلا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

بہتے بہتے پکارا لہو

کٹنے والی گردنیں، نام و نشانِ کربلا

جرات، فصیل جبر گرانے کو چاہیے

حرم بھی رو پڑا، ایسی اذان دی تو نے

توحید پر محیط ہے ، قربانیِ حسین

لہو تیرا جو اِن آنکھوں کے

جو یقیں زاد ہے جو صابر ہے

آئے ہر سال محرّم ، مرے اشکوں

جو ڈٹ گئے یزید کی فوجوں کے سامنے

بوئے بہشت، زوجِ علی، دخترِ رسول