میرا بادشاہ حسین ہے

نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے

میرا بادشاہ حسین ہے میرا بادشاہ حسین ہے


عمل کا رہنما بھی جو شاہوں کا ہے شاہ بھی

ایسا شہنشاہ حسین ہے


سنو سنو یہ دین تو حسین کا ہمیں انعام ہے

یہ بات کس قدر حسیں جو کہہ گئے معین الدیں


کہ دین کی پناہ حسین ہے

شہید وہ شہید ہے شہیدوں کو بھی جن پہ ناز ہے


یہ ہو چکا ہے فیصلہ نہ کوئی دوسرا خدا

نہ کوئی دوسرا حسین ہے


دعاؤوں میں نواؤں میں اُنہیں وسیلہ جو بنائے گا

نہ راستے میں موڑ ہے نہ واسطے میں موڑ ہے


ایسی سیدھی راہ حسین ہے

شہید کربلا کا نام جس کو ناگوار ہے


وہ بد نظر ہے بد نصب اُنہیں میں یہ شمار ہے

ارے اُو منکرِ ازل تو مر ذرا قبر میں چل


پتا چلے گا کیا حسین ہے

فنا کے بعد پھر مجھے نئی حیات مل گئی


عذاب سے عتاب سے مجھے نجات مل گئی

سوال جب کیا گیا ہے کون تیرا پیشوا


تو میں نے کہہ دیا حسین ہے

شاعر کا نام :- نامعلوم

اِذنِ طیبہ مُجھے سرکارِمدینہ دے دو

کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ

خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ و سلم

اے بِیابانِ عَرب تیری بہاروں کو سلام

وقتی کہ شوم محوِ ثنائے شہِ لولاک

فلک نشاں، عرش مرتبت، کہکشاں قدم، خوش نظر خدیجہؑ

زندگی میری ہے یارب یہ امانت تیری

آقا کی زلفِ نور سے عنبر سحر ملے

اللہ رے تیرے در و دیوار,مدینہ

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا