سبیل، اشک لگاتا ہُوں دِیدہ ء نم پر

سبیل، اشک لگاتا ہُوں دِیدہ ء نم پر

سلام بھیج رہا ہُوں شہیدِ اعظم پر


صدا بھی اپنی مجھے کربلا سے آتی ہے

مہک سی تازہ لہُو کی ہوا سے آتی ہے


ہدف بنایا ہے باطل نے حق کے راہی کو

سِتم نے لے لیا گھیرے میں بے گُناہی کو


جبیں پہ جس کی رسالت مآب کے بو سے

زبانِ کفر اُسے کس خلوص سے کوسے


کیا زمانے کو سیراب جس کے دریا نے

اُسی کے حَلق میں کانٹے بچھائے دُنیا نے


قدم جو رکھتا تھا دوشِ نبی کے زینے پر

سوار ہو گیا قاتل اُسی کے سِینے پر


نمک چھڑکنے جو زخموں پہ دُھول آئی ہے

کفن لِیے ہُوئے رُوحِ رسُول آئی ہے


سیاہ رنگ چڑھے زندگی کے محلوں پر

کھُلے سروں کے صحیفے لہُو کی رحلوں پر


مقابلہ خسِ تنہا کا بجلیوں سے ہُوا

چراغ بر سرِ پیکار آندھیوں سے ہُوا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

کیوں کر نہ ہوں معیارِ سخا فاطمہ زہرا

حجابِ امامت ۔۔۔۔۔1

چرچا ہے جہاں میں تری تسلیم و رضا کا

اے شہہِ ہر زماں یعنی فخرِ بیاں تو امام

مرشدِ برحق شہِ احمد رضا

معزز ، معطر حسینؓ ابنِ حیدرؓ

سب سے اعلیٰ نسب حسین کا ہے

ہے کون رونقِ چمن

خُون کے چھینٹے جو دیکھے وقت کے کِردار پر

گلشنِ مصطفٰیؐ کی مہکتی کلی