حضور آئے بہاروں پر عجب رنگِ بہار آیا

حضور آئے بہاروں پر عجب رنگِ بہار آیا

حضور آئے رُخِ ہستی پہ اک تازہ نکھار آیا


حضور آئے مہ و خورشید تارے جگمگا اُٹھے

حضور آئے تو ہر ذرّہ مثالِ زر نگار آیا


حضور آئے تو خوشبوؤں کے نافے کھل گئے ہر سو

ہر اک کوچہ ہر اک قریہ مہکتا مشکبار آیا


حضور آئے تو انساں نے شعورِ زندگی پایا

تو پھر تہذیبِ انساں پر عروج و افتخار آیا


حضور آئے تو دنیا میں ہوا توحید کا غلبہ

ہوئے بت سرنگوں ایمان پر تازہ نکھار آیا


حضور آئے تو شاہوں کا طریقِ خُسروی بدلا

غلاموں کو بھی ہستی کا شعور و اعتبار آیا


حضور آئے تو جاگ اُٹھا بشر کا بختِ خوابیدہ

وہ نُورِ لم یزل ہر سمت سے ظلمت اتار آیا


حضور آئے سکوں پایا جہاں کے بے سکونوں نے

ضعیفوں بے نواؤں کو قرارِ صد قرار آیا


حضور آئے تو دھرتی نے قدومِ میمنت چومے

زمیں نے وہ شرف پایا فلک کو جس پہ پیار آیا


غلامی کی سند نوری ملے اے کاش محشر میں

کہیں جو شافعِ محشر وہ میرا جاں نثار آیا

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

خلق دیتی ہے دہائی مصؐطفےٰ یا مصؐطفےٰ

سر روضۂ سرکارؐ کی دہلیز پہ ہے

سرکار غوثِ اعظم نظرِ کرم خدارا

حاجیو! آؤ شہنشاہ کا رَوضہ دیکھو

اکھیاں دے نیر جدائی وچہ دن رات وگائے جاندے نیں

یا رب! ملی مجھے یہ نوا تیرے فضل سے

مُجھ کو دنیا کی دولت نہ زَر چاہئے

تو امیرِ حَرمُ مَیں فقیرِ عَجم

پھر مدینہ دیکھیں گے، پھر مدینے جائیں گے

زخم بھر جائیں گے سب چاک گریبانوں کے