اجالوں کا جہانِ بیکراں یہ پیر کا دن ہے
بہاروں میں بہارِ جاوداں یہ پیر کا دن ہے
درودوں کی سلاموں کی صدائیں ہی صدائیں ہیں
عجب آمد نشاں، حیرت سماں یہ پیر کا دن ہے
ابھی تک راستے گلیاں فضائیں سب مہکتی ہیں
تری نسبت سے ہی عنبر فشاں یہ پیر کا دن ہے
ابھی تک روشنی ہی روشنی ہے بزمِ امکاں میں
ابھی تک روزِ روشن کا بیاں یہ پیر کا دن ہے
ترا خورشید کیا نکلا کہ ظلمت ہو گئی رخصت
اجالوں کا نقیبِ بے گماں یہ پیر کا دن ہے
پسِ تسبیحِ کُلّ شئ ہر اک ذرّہ ثنا خواں تھا
ظہورِ مصدرِ نطق و بیاں یہ پیر کا دن ہے
زمیں سے آسماں تک نور تھا رونق ہی رونق تھی
اسی جشنِ مسرّت کا نشاں یہ پیر کا دن ہے
خدا کے بعد زیبا ہے تجھے زیبائی یکتائی
یہی اثنَین کی رمزِ نہاں یہ پیر کا دن ہے
کہی ہے نعت نوری نے بہ پاسِ خاطرِ مقصود
یقیناً نعت کا یومِ جہاں یہ پیر کا دن ہے
شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری
کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا