یہ جو حسنِ خیال ہے آقا

یہ جو حسنِ خیال ہے آقا

تیرا فیضِ جمال ہے آقا


جس میں جتنی ہیں خوبیاں، یکسر

آپ ہی کا کمال ہے آقا


سیرتِ نور کی ہے تابانی

یہ جو حسنِ خصال ہے آقا


جو بھی دنیا میں سچ کی دولت ہے

تیرا عکسِ مقال ہے آقا


یہ جو تاروں میں جگمگاہٹ ہے

تیری گردِ نعال ہے آقا


تیری راہوں کا ایک اک ذرّہ

آفتابِ جمال ہے آقا


دونوں عالم میں بٹ رہا ہے جو

تیرا جود و نوال ہے آقا


آبِ زم زم ہو یا کہ کوثر ہو

سب لعابِ زلال ہے آقا


اپنی رحمت کی اک نظر ڈالیں

غم سے اُمّت نڈھال ہے آقا


سب کے ہاتھوں میں تیر دیکھے ہیں

تیری رحمت ہی ڈھال ہے آقا


کب اٹھیں گے عروج کی جانب

کب سے لاحق زوال ہے، آقا


تیرا نوری بھی کوئی نعت کہے

بے عنایت، محال ہے آقا

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

انوار دا مینہ وسدا پیا چار چوفیرے تے

ہم شہر مدینہ کی ہوا چھوڑ چلے ہیں

اِذنِ طیبہ مُجھے سرکارِمدینہ دے دو

میرا دل اور مری جان مدینے والے

مُشتِ گل ہُوں وہ خرامِ ناز دیتا ہے مُجھے

اس طرف بھی شاہِ والا

لمحہ لمحہ شمار کرتے ہیں

کھو یا کھو یا ہے دل

نعمتِ بے بدل مدینہ ہے

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب