اے زمینِ عرب ، آسمانِ ادب ، تجھ پہ بنیادِ تہذیب رکھی گئی
تیرے دِل پر رقم ، ہیں وہ نقشِ قدم ، جن سے کونین میں روشنی کی گئی
مَیں بھی تیری فضاؤں کو اوڑھے پھرا ، میرے اندر بھی ہے ایک غارِ حر ا
جب محمّدؐ کی دہلیز پر جا گِرا ، میرے آگے سے دُنیا ہٹالی گئی
کیا حسیں تھی وہ مُڑتی ہوئی رہگزر ، تِیرگی میں کِیا روشنی کا سفر
مُجھ گنہگار پر ، جب اُٹھی وہ نظر ، میرے سینے میں پیوست ہوتی گئی
ریت کی پائلیں باندھ کر پاؤں میں ‘ رقص کرتا پھرا تیرے صحراؤں میں
شہر میں گاؤں میں دُھوپ میں چھاؤں میں ‘ عمر کی ساری نقدی لُٹا دی گئی
پہلے اُن کی محبّت کا سا یا مِلا ، پھر مجھے اُن کی رحمت کا چشمہ مِلا
اُن کی راہوں سے پھر اِس قدر جا مِلا ، اُن کو دیکھا ، نظر جس طرف بھی گئی
مَیں جو عشقِ نبی میں فنا ہوگیا ، میرا ہر سانس حرفِ ثنا ہو گیا
بے طلب ہو گیا بے اَنا ہو گیا ، عاجزی آگئی بے قراری گئی
جب محمّدؐ کا مُجھ کو پتہ لگ گیا ، مُجھ میں صُبحوں کا انبوہ سا لگ گیا
جتنا جی بھر کے دیکھا مظفؔر انھیں ‘ پیاس آنکھوں کی اتنی بھڑکتی گئی
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- کعبۂ عشق