ایسے بن کر وہ خوبرو آئے
کوئی ان کے نہ رو برو آئے
میں کروں جب بھی نور کی باتیں
روشنی میرے چار سو آئے
والی دو جہاں کی محفل میں
ہر کوئی ہو کے باوضو آئے
سانس جب تک مری سلامت ہے
لب پر تری ہی گفتگو آئے
جب بھی موت آئے آرزو ہے یہی
سبز گنبد کے روبرو آئے
دید محبوب کبریا کے سوا
دل میں کوئی نہ آرزو آئے
جب بھی میں نے انہیں پکارا ہے
میری رکھنے وہ آبرو آئے
مجھ کو خوشبو گلشن طیبہ
سو بسو آئے کو بہ کو آئے
کون آیا ہے ان کے کوچے سے
آج محفل میں ان کی بو آئے
نعت پڑھتی رہے زباں میری
دل سے میرے صدا ھو آئے
اہل طیبہ بھی ہیں دُعا کرتے
پھر نیازی مدینے تو آئے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی