اپنے اللہ سے محبوب کا در بھی مانگو

اپنے اللہ سے محبوب کا در بھی مانگو

مانگنے والو ! مدینے کا سفر بھی مانگو


مانگنا جرم نہیں عشق نبی کی دولت

عشق ہے دل میں تو پھر حسنِ نظر بھی مانگو


دل وہ مانگو کہ رہیں جس میں نبی کی یادیں

گر کے قدموں پہ جو اُٹھے نہ وہ سر بھی مانگو


رشک کرتی ہے جنہیں دیکھ کے فردوس بریں

وہ مدینے کے حسیں شام و سحر بھی مانگو


مانگو محبوب سے محبوب کے جلوؤں کا خمار

اُن کے جو نام پہ تڑپے وہ جگر بھی مانگو


تم طلب کرتے ہو دنیا کے حسیں تاج محل

ان کے کوچے میں کوئی چھوٹا سا گھر بھی مانگو


تیرے دامن میں زر وسیم نیازی ہیں تو کیا

عشق سرکار میں اشکوں کے گہر بھی مانگو

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

بخش دے میری ہر اِک خطا یاخدا

تریؐ نورانی بستی میں چلوں آہستہ آہستہ

یہ نظر حجاب نہیں رہے

اُنؐ کی نبیوں میں پہچان سب سے الگ

عاشقانِ مصطفٰےؐ سب مل

جو اُس کو دیکھ لے وہی صاحبِ نظر لگے

لباں تے ثنا ہووے پُوری دُعا ہووے

سکونِ دل آرامِ جاں مل گیا ہے

مسجدِ عشق میں دن رات عبادت کرنا

رہ وفا میں قدم جب بھی ڈگمگایا ہے