اپنے پرائے سے بے گانہ لگتا ہے
یہ تو محمد کا دیوانہ لگتا ہے
رختِ سفر باندھ اے دل چل طیبہ کو چلیں
ان کے شہر کا آب و دانہ لگتا ہے
اللہ کا محبوب اور ایک معمولی بشر
ایسا تصور بھی بچکانہ لگتا ہے
جب کوئی آقا کی اہانت کرتا ہے
اپنا ہو تب بھی بے گانہ لگتا ہے
فرقتِ طیبہ کی جب باتیں ہوتی ہیں
ہم کو اپنے دل کا فسانہ لگتا ہے
ایک ہی پیالہ رہزن کو ابدال کرے
یہ تو بغدادی مے خانہ لگتا ہے
ہر جانب انوار کی بارش ہوتی ہے
خواجہ کا در کیا ہی سہانا لگتا ہے
نسبت والے پیروں کا ہوتا ہے کرم
مارہرہ طیبہ کا آنا لگتا ہے
گنبدِ خضریٰ نام آتے ہی مضطر ہو
نظمی طیبہ کا مستانہ لگتا ہے
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا