اپنے پرائے سے بے گانہ لگتا ہے

اپنے پرائے سے بے گانہ لگتا ہے

یہ تو محمد کا دیوانہ لگتا ہے


رختِ سفر باندھ اے دل چل طیبہ کو چلیں

ان کے شہر کا آب و دانہ لگتا ہے


اللہ کا محبوب اور ایک معمولی بشر

ایسا تصور بھی بچکانہ لگتا ہے


جب کوئی آقا کی اہانت کرتا ہے

اپنا ہو تب بھی بے گانہ لگتا ہے


فرقتِ طیبہ کی جب باتیں ہوتی ہیں

ہم کو اپنے دل کا فسانہ لگتا ہے


ایک ہی پیالہ رہزن کو ابدال کرے

یہ تو بغدادی مے خانہ لگتا ہے


ہر جانب انوار کی بارش ہوتی ہے

خواجہ کا در کیا ہی سہانا لگتا ہے


نسبت والے پیروں کا ہوتا ہے کرم

مارہرہ طیبہ کا آنا لگتا ہے


گنبدِ خضریٰ نام آتے ہی مضطر ہو

نظمی طیبہ کا مستانہ لگتا ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

دل میں پیارے نبی کی ہیں یا دیں لب پہ ہو اللہ ہو کی صدا ہے

جو محروم ہیں تیرے لطف و کرم سے پھریں گے سدا دربدر مارے مارے

اے خاکِ مدینہ ! تِرا کہنا کیا ہے

کردا رہو سوہنے دیاں باتاں اک دن سوہنا آجاوے گا

غم ندامت درد آنسو اور بڑھ جاتے ہیں جب

کوئی محبوب کبریا نہ ہوا

کوئی خواہش ، کبھی احقر سے جو پوچھا جائے

شاہ دیں شہ انام

میرے سوہنے آقا تے مولا دی گل اے

شجر و برگ و حجر شمس و قمر دم یہ ان کا ہی بھرا کرتے ہیں