از مواجہ تا بہ منبر رحمتوں کی بارشیں
اک تسلسل کا ہے منظر رحمتوں کی بارشیں
ہو گئی جس کی رسائی شاہ کے دربار تک
بن گئیں اس کا مقدر رحمتوں کی بارشیں
شہرِ پر انوار میں احساس پر حاوی رہے
نور و نکہت مشک و عنبر رحمتوں کی بارشیں
خم ہوئی جس کی جبیں سنگِ درِ سرکار پر
اس پہ برسی ہیں برابر رحمتوں کی بارشیں
یاد جب ان کی اترتی ہے مشامِ جان میں
خوب کرتی ہیں معطر رحمتوں کی بارشیں
زرد رو ہے مزرعِ دل فرقتِ سرکار
چاہتا ہے قلبِ مضطر رحمتوں کی بارشیں
جن کے گھر ہوتا ہے ذکرِ مصطفیٰ اشفاق جی
ٹوٹ کر برسی ہیں ان پر رحمتوں کی بارشیں
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت