زِیست وقفِ غمِ و آلام تھی جن سے پہلے

زِیست وقفِ غمِ و آلام تھی جن سے پہلے

آدمیّت پہ جفا عام تھی جن سے پہلے


آشنا حُسن سے کوئی نہ پر ستارِ وفا

عاشقی جُرم تھی اِلزام تھی جن سے پہلے


نہ کوئی دَرد سے آگاہ نہ غم سے واقِف

بے خودی گوہرِ گم نام تھی جن سے پہلے


نشۂ بادۂ وَحدت سے کوئی چُور نہ تھا

بزم آرا مئے گُلفام تھی جن سے پہلے


دولتِ امن سے محروم تھا دامانِ حیات

زندگی ایک تہی جام تھی جن سے پہلے


عِشق بے چارہ تھا بے بہرۂ تسلیم و رضا

عقل آوارہ و بدنام تھی جن سے پہلے


لِلّٰہ الحمد کہ رحمت سا سراپا بن کر

آگئے آپ ہر اک غم کا مداوا بن کر


اعظؔم اب جھُوم کے لو سیّدِ کونین کا نام

خود خدا بھیجتا ہَے جِن پہ درود اور سلام

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

جہل کا سرورِ ابلاغ پہ خم تو نے کیا

تصوّر میں اُنہیں ہم جلوہ ساماں دیکھ لیتے ہیں

آئی رات معراج دی نورانی جاگے بھاگ نے او گنہاراں دے

دور آنکھوں سے در نہ جائے کہیں

دلِ بے چین کی راحت نبی کی نعت ہوتی ہے

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

نہیں ہے ذکرِ نبی لبوں پر دلوں میں عشقِ نبی نہیں ہے

ویکھ لواں اک وار مدینہ

کس بات کی کمی ہے مولا تری گلی میں

مہتاب و آفتاب نہ ان کی ضیا سے ہے