باغِ عالم میں ہے دِلکشی آپ سے

باغِ عالم میں ہے دِلکشی آپ سے

اور پھولوں میں ہے تازگی آپ سے


کُفر کا دور تھا ظُلمتیں جابجا

ہو گئی دہر میں روشنی آپ سے


قاسمِ نعمتِ کبریا آپ ہیں

جو بھی دولت مِلی وہ مِلی آپ سے


رہنما سیرتِ طیّبہ آپ کی

لے رہا ہے جہاں آگہی آپ سے


یہ زمین و زماں یہ مکین و مکاں

ہے سبھی کی بقا یا نبی آپ سے


اور کیا غیب ہو آپ سے کچھ نہاں

ذاتِ ربُّ العُلیٰ نا چُھپی آپ سے


رُخ کی طلعت شہا مُجھ کو دِکھلائیے

رات دن یہ مری لو لگی آپ سے


بات بگڑی ہوئی میری پل میں بنی

دل سے فریاد جب میں نے کی آپ سے


دم میں جب تک ہے دم نعت مرزا کہے

عرض ہے عاجزانہ یہی آپ سے

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

اُجڑی نوں وسا جاوے ، لگیاں نوں نبھا جاوے

جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عَالم کیا ہوگا

ساڈے آقا کملی والے دی گفتار دے چرچے گلی و گلی

سارے بڑوں سے تو ہی بڑا ہے خدا کے بعد

نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے

ان کے چہرے کی تجلّی سے

مجھ کو مال و زر نہ گوہر چاہیے

وہ آستانِ پاک کہا ں ‘ میرا سر کہاں

نہ سُر کی مجھ کو خبر ہے نہ جانتا ہوں میں لَے

پھیرا کدی پاویں ساڈے ول سوہنیا