وہ آستانِ پاک کہا ں ‘ میرا سر کہاں

وہ آستانِ پاک کہا ں ‘ میرا سر کہاں

میں اک بشر کہاں ‘ درِ خیر البشر کہاں


اک سیلِ رنگ و نُور ہے حدِ نگاہ تک

وہ جلوہ گاہِ قدس کہاں‘ یہ نظر کہاں


منشائے شوق اپنی جگہ معتبر سہی

نظارہء جمال کی جراءت مگر کہاں


ان کا خیال ‘ ان کی ثنا ‘ ان کا ذکرِ خیر

وارفتگانِ عشق کو اپنی خبر کہاں


اب ہم ہیں اور مدینے کی گلیوں کے روز و شب

اُس در کے سائلوں کا کوئی اور گھر کہاں


کٹنے کو کٹ رہے ہیں شب و روزِ زندگی

لیکن دیار ِ پاک کے شام و سحر کہاں


اے سرزمینِ وادئ بطحا پناہ دے

چھانیں گے خاک اہلِ وفا در بہ در کہاں


ذکرِ رسولﷺ صرف مداوا ہے درد کا

ورنہ غمِ جہاں سے کسی کو مفر کہاں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

دیکھ لوں جا کر مدینہ پاک کو

لبوں پہ دو جہاں کے ہے نامِ شاہِ دوسرا

نور ونکہت کی گھٹا چاروں طرف چھائی ہے

زندگی جب تھی، یہ جینے کا قرینہ ہوتا

چَھٹے زمانے سے غم کے سائے جو آپ آئے

آفاق میں جو سب سے بھلی در کی عطا ہے

عشقِ نبی ﷺ جو دل میں بسایا نہ جائے گا

کیا عزّ و شرف رکھتے ہیں مہمانِ مدینہ

سرکار پڑی جب سے نظر آپ کے در پر

مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا