بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرا

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرا

آئینہ حق ہے شہِؐ ابرار کا چہرا


دیکھیں تو دعا مانگیں یہی یوسفِؑ کنعاں

تکتا رہُوں خالق! ترے شہکار کا چہرا


اے مُطّلِبی پھُول ! بہاروں کے پیمبر

کِھلتا ہے ترے نام سے گُلزار کا چہرا


خورشیدِ حلیمہؓ! تری مشتاق ہیں آنکھیں

بھاتا نہیں اب ماہِ ضیا بار کا چہرا


اے خُلد! کروں گا ترا دیدار بھی، لیکن

اِس دم ہے نظر میں، تِرے مختار کا چہرا


والشّمس کی یہ واِ قَسَم کہتی ہے مُڑ کر

بے داغ رہا شاہ کے کردار کا چہرا


جلووں سے ہو معمور نہ کیوں دل کا مدینہ

آنکھوں میں ہے اُس مطلعِ انوار کا چہرا


دورانِ شفاعت وہ سُکوں بخش ش دِلا سے

بے فکرِ ندامت ہے گنہگار کا چہرا


کھلتا ہی کیا پھول کی صورت دم آخر

اترا نہیں دیکھا ترے بیمار کا چہرا


پُوچھا جو یہ سائل نے کہ کیا چیز ہے اَحَسن

صدّیق ؓ نے برجستہ کہا، ’’یار کا چہرا‘‘


اُترے پسِ مرگ اُس کی زیارت کو فرشتے

نکھرا وہ ترے طالبِ دیدار کا چہرا


جھپکے جو نصیرؔ آنکھ دمِ نزع تو یارب!

پُتلی میں پھرے احمدِؐ مختار کا چہرا

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

سرخ عنوان بنے گا کئی افسانوں کا

صدقہ تیری چوکھٹ کا شہا مانگ رہے ہیں

سَرورِ کون و مکاں ختمِ رسل شاہِ زمن

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

اکرامِ نبی، الطافِ خدا، سبحان اللہ ماشاء اللہ

رکھ کے سب دا بھرم کملی والے

کملی والے دے در اُتے گردن جھکا

کِس کو اُن کی شان و رِفعت کا پتہ معلوم ہے

یکتا ہے ترا طرزِ عمل ، احمدِؐ مرسل

محراب کی بغل میں تنا تھا کھجور کا