بحمد اللہ گداؤں کو ملا داتا کا در ایسا
کوئی خالی نہیں جاتا سخی کا ہے یہ گھر ایسا
جوامت کے لئے روتا رہا سجدے میں سر رکھ کر
نہ دیکھا چشم عالم نے کوئی بھی چشم تر ایسا
میں ایک ایسا بھی سجدہ چاہتا ہوں انکی چوکھٹ پر
نہ اٹھے پھر کبھی جھک جائے سجدے میں یہ سر ایسا
وہ اوڑھے کالی کملی مسجد نبوی میں بیٹھے ہوں
پڑھوں جب نعت میں انکی مجھے آئے نظر ایسا
جہاں سے کاسہ خیرات بھرتا ہے دو عالم کا
تیرے در کے سوا دیکھا نہ در ایسا نہ گھر ایسا
سمجھتے ہیں جو ان کو اپنے جیسا وہ یہ بتلائیں
گیا ہے عرش اعظم پر کبھی کوئی بشر ایسا
میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو ہوتا ہوں مدینے میں
کیا کرتا ہوں میں اکثر مدینے کا سفر ایسا
وہ بے آواز اشکوں کی صدا سرکار کے در پر
وہ کیف آئے نہ شاید پھر کبھی بھی عمر بھر ایسا
وہ جس کی راہبری پہ راہبر بھی ناز کرتے ہیں
خوشا قسمت کہ ہم کو مل گیا ہے راہبر ایسا
ہیں جتنے انبیاء سارے ہی ارفع اور اعلیٰ ہیں
مرے سرکار ہیں جیسے نہیں کوئی مگر ایسا
سلاطین زمانہ پل رہے ہیں جس کے صدقے سے
تمہیں ہو اور کوئی بھی نہیں ہے تاجور ایسا
سر محشر وہی تو ہیں جو ہم کو بخشوا ئیں گے
رکھو کامل یقیں تم رحمت سرکار پر ایسا
مدینہ جس کی منزل ہو، مدینے میں جو لے جائے
تمنا ہے مجھے مل جائے کوئی ہم سفر ایسا
شرف بخشیں حضوری کا دوبارہ بھی نیازی کو
کرم ہو جائے اے سرکار پھر بارِ دگر ایسا
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی