بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے

بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے

پوچھنا مدینے سے، لوٹتے گداؤں سے


ان کے عشق کا امرت، پی لیا تھا گھٹی میں

ان کا نام سیکھا تھا، ہم نے اپنی ماؤں سے


سرورِ امم مجھ کو، اذنِ لب کشائی دیں

حرفِ نعت لایا ہوں، اپنے ساتھ گاؤں سے


اے حبیبِ ما اب تو، مرہمِ زیارت دیں

مارِ ہجر ڈستا ہے، مجھ کو سب دشاؤں سے


آپ بس اشارہ دیں، ہم کشاں کشاں آئیں

خواہشِ سفر ہم نے، باندھ لی ہے پاؤں سے


یہ جو ہم مدینے میں، جا کے جی سے جاتے ہیں

ہم کشید کرتے ہیں، زندگی فضاؤں سے


حشر میں بھی ہم ناعت، لطف لے رہے ہوں گے

سبز سبز گنبد کی، نرم نرم چھاؤں سے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

مژدۂ رحمت حق ہم کو سنانے والے

ہے اُچا عرشِ عظیم توں رتبہ تے شان مدینے دا

لَحَد میں وہ صورت دکھائی گئی ہے

میرے آقاﷺ آؤ کہ مُدت ہوئی ہے

جیہدی صفت خدا خود کردا اے اوہدی شان جیہاتے اک وی نئیں

مصطفی دا آستانہ نور اے

دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے

ترے زہد و تقویٰ فضول ہیں ترے صوم و سجدہ گری فریب

سر تا بقدم ہے تن سُلطانِ زَمن پھول

سب سے اولٰی و اعلٰی ہمارا نبیﷺ