بلا سبب تو نہیں ہے کھلا دریچۂ خیر

بلا سبب تو نہیں ہے کھلا دریچۂ خیر

صبا نے دل کو سنایا کسی کا گفتۂ خیر


ریاضِ جاں میں انہی سے کھلے ہیں خیر کے گل

دل و نگاہ انہی سے بنے حدیقۂ خیر


بچھا کے بیٹھے ہیں آنکھیں کہ ہو گا ان کا گزر

چمک رہا ہے امیدوں سے دل کا خیمۂ خیر


گزر رہی ہے جو بادِ نسیم دھیرے سے

کسی غلام کا لے کر چلی ہے تحفۂ خیر


صبا کے لب پہ جو رہتی ہے نغمگی ہر دَم

درود پڑھتی ہے یا پھر سلامِ نغمۂ خیر


کرم پہ ان کے یقیں ہے مجھے بلائیں گے

انہیں خبر ہے ہماری بلا عریضۂ خیر


ذرا سا رک تو اجل اور لے ذرا سا دَم

ابھی دکھائیں گے مجھ کو حضور چہرۂ خیر


کہیں پہ سعدی و جامی، کہیں پہ بو صیری

سبھی کی فکر کا حاصل ثنا کا توشۂ خیر


کہاں رضا کا وہ لہجہ کہاں نصیر کا رنگ

کہاں وہ حُسْنْ حَسَنْ کاکہاں یہ ھدیۂ خیر


انہی کے اذن سے جب بھی ہوئی ہے نعت رقم

ظفر نصیب ہوا ہے مجھے بھی خامۂ خیر

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

ان کی یادوں کا دیا دل میں جلائے رکھنا

جس کو نسبت ہوئی آپ کے نام سے

پاک نبی دے ناں دا سکہ دو عالم وچ چلدا رہنا

وہ دن بھی آئیں گے، ہوگی بسر مدینے میں

عجب روح پرور فضائے مدینہ

مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا

پائی گئی ہے دوش پہ جن کے ، رِدائے خیر

فتحِ قفلِ سعادت ہے کارِ ثنا

عرب دے راہی عرب دی ٹھنڈی ہوا نوں میرا سلام آکھیں

جو کسی کسی کا نصیب ہے