دلِ مضطر میں طیبہ کی بسی ہے آرزو اب تک
اسی امید میں رقصاں رگوں میں ہے لہو اب تک
فرامینِ محمدؐ ہیں ہدایت سیدھے رستے کی
ہے صدیوں بعد بھی جاری انہی پر گفتگو اب تک
عمل اپنا تو لایا تھا تباہی کے دہانے پر
کسی کے فیض نے رکھا ہے مجھ کو سرخرو اب تک
گزر ہوتا تھا جن گلیوں سے سرکارِ مدینہ کا
مہک ان کی وہاں پھیلی ہوئی ہے چار سو اب تک
وہ جن کے ذکرِ عالی کو خدا نے کر دیا اونچا
انہی کے گیت گاتے ہیں عنادل خوش گلو اب تک
وہ جن ذرّوں نے چومے ہیں تری نعلین کے تلوے
وہ ذرّے ضو فشاں ہیں کہکشاں میں ہو بہو اب تک
جو توقیر و شرف بخشا ہے تو نے اپنے حبشی کو
اسی پر رشک کرتے ہیں حسین و خوبرو اب تک
خدا نے آپ کو اخلاق کی دولت عطا کی ہے
نہیں دیکھا کسی نے آپ جیسا نرم خُو اب تک
ترے روضے کے جلوے تو خیالوں میں بسے ایسے
کہ ان جلووں سے ہے اپنا تخیّل با وضو اب تک
محمدؐ کی محبت ہی جو پہلی شرطِ ایماں ہے
فزوں سے ہے فزوں تر ہی محبت کی نمو اب تک
مئے عشقِ محمدؐ نے ہے یوں سرشار کر ڈالا
کہ ہیں گردش میں صدیوں سے وہی جام و سبُو اب تک
ترِے اسمِ گرامی کو بسایا اپنے سینے میں
جلیلِ بے ہنر کی ہے اسی سے آبرو اب تک
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- رختِ بخشش