مصائب میں تُجھ سے توسل کیا
پھِر اللہ پر بھی توکّل کیا
بہار آفرین و چمن ساز نے
تُجھے گُل کیا مُجھ کو بُلبل کیا
کہاں تک شبِ ہجر ضبطِ فغاں
کہ اب تک تو مَیں نے تحمّل کِیا
چلا اذن مِلتے ہی بے رخت و زاد
نہ سوچا نہ مَیں نے تامّل کِیا
کبھی میں نے مانی نہیں نفّس کی
بہت میرے شیطان نے غُل کِیا
یہ تُو ہے کہ جِس نے دیا درسِ شرع
یہ مَیں ہُوں کہ جس نے تغافل کِیا
بدی ہی کا پلّہ جھُکا ہائے ہائے
جو نیکی بدی کا تقابُل کِیا
جو آیا نہ طیبہ سے اذنِ طلب
سفر یہ براہِ تخیُّل کِیا
کِیا طاعتِ حق کا دریا عبُور
ترے جذبۂ عشق کو پُل کِیا
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں