مصائب میں تُجھ سے توسل کیا

مصائب میں تُجھ سے توسل کیا

پھِر اللہ پر بھی توکّل کیا


بہار آفرین و چمن ساز نے

تُجھے گُل کیا مُجھ کو بُلبل کیا


کہاں تک شبِ ہجر ضبطِ فغاں

کہ اب تک تو مَیں نے تحمّل کِیا


چلا اذن مِلتے ہی بے رخت و زاد

نہ سوچا نہ مَیں نے تامّل کِیا


کبھی میں نے مانی نہیں نفّس کی

بہت میرے شیطان نے غُل کِیا


یہ تُو ہے کہ جِس نے دیا درسِ شرع

یہ مَیں ہُوں کہ جس نے تغافل کِیا


بدی ہی کا پلّہ جھُکا ہائے ہائے

جو نیکی بدی کا تقابُل کِیا


جو آیا نہ طیبہ سے اذنِ طلب

سفر یہ براہِ تخیُّل کِیا


کِیا طاعتِ حق کا دریا عبُور

ترے جذبۂ عشق کو پُل کِیا

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

بُلا لیجے گا عاصی کو بھی در پر یا رسول اللہ

جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسولؐ کی

دل دیاں ٹٹیاں نے تاراں سوہنیاں

جس سے دونوں جہاں جگمگانے لگے

جس کدے کسے دی نال تیرے آشنائی ہوگئی

نورِ امکا ں کا خزانہ درِ والا ان کا

اے کرم کے آفتابِ ضوفشاں خوش آمدید

ریاضت پر، قیادت پر، تکلم پر، تبسم پر

عرشی فرشی رل کے دین مبارک باد حلیمہؓ نوں

ہے فضلِ کردگار مدینہ شریف میں