دلہا شہیدِ قدِ قیامت ادای تو

دلہا شہیدِ قدِ قامت ادای تو

جانہا فدای جلوۂ بی منتہای تو


چاہِ ذقن برای دلم دام گاہ شد

جانم اسیرِ حلقۂ زلفِ دوتای تو


ما بادمِ مسیح نہ داریم حاجتی

حرفی بس است از لبِ معجز نمای تو


افسوس برسری کہ نہ دارد جنونِ تو

صد حیف بردلی کہ نہ دارد ہوای تو


شاکر نہادہ است جبینِ نیازِ خویش

گریہ کنان بہ قبلہء دولت سرای تو

کتاب کا نام :- چراغ

دیگر کلام

مدیحِ شاہِ زمن کا مرید کر رہا ہوں

لطف غزل بھی اپنی جگہ خوب ہے مگر

تاثیر اسی در سے ہی پاتی ہے مری لے

زباں کو جب سے ثناء کی ڈگر پہ ڈالا ہے

ظلمتیں چھٹ گئیں

تیری عظمت کا ہر اک دور میں چرچا دیکھا

رہ وفا میں قدم جب بھی ڈگمگایا ہے

نبی کے ذکر کی محفل سجائے بیٹھے ہیں

اِس شان سے ہو کاش تماشائے مدینہ

ترے در سے غُلامی کا ، شہا ! رشتہ پُرانا ہے