گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

رہتا ہے صبح و شام وہ روضہ خیال میں


آکر دل و دماغ معطر بنا گیا

سرکارِ دو جہاں کا پسینہ خیال میں


دربارِ مصطفےٰ میں گئے ہم بصد ادب

قرآنی آیتوں کو بھی رکّھا خیال میں


تم چاہتے ہو دیکھنا آدابِ زندگی

لے آؤ مصطفےٰ کا گھرانا خیال میں


یادِ شہِ امم ہے شریکِ سفر ابھی

پھیلا ہوا ہے اس کا اجالا خیال میں


جاتا نہیں خیال سے بارانِ مشک و نور

رہتا ہے ان کا روضہ ہمیشہ خیال میں


اشعار پڑھ کے کہنے لگیں لوگ مرحبا

لاؤ شفیقؔ رنگ اچھوتا خیال میں

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

بن کے خیر الوریٰ آگئے مصطفے ہم گنہگاروں کی بہتری کیلئے

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شانِ جمال

مینوں بخشیاں عزتاں مصطفیٰ نے

جہاں بھی پہنچے ترا آستاں نظر آیا

پہنچا ہوں روبروئے حرم صاحبِ حرم

دنیا ہے اجالوں کے اندھیروں میں گرفتار

محمدؐ کا حُسن و جمال اللہ اللہ

ذوقِ نعتِ شہِ ابرار نے سونے نہ دیا

بخشی گئی جو نعمتِ مدح و ثنا مجھے

شاناں اُچیاں نے سرکار دیاں