ہے اک آشوبِ مسلسل یہ اندھیروں کا نزول

ہے اک آشوبِ مسلسل یہ اندھیروں کا نزول

ایک ہلکی سی کرن ، اُمتِ عاصی کے رسُول ؐ !


کچھ انوکھے ہیں زمانے کے جہانبانوں سے

تیری شفقت کے ، محبت کے ‘ مروّت کے اصول


ظلمتیں کر نہ سکِیں تیرے عزائم کو علیل

کر سکا کوئی جفا جُو نہ تیرے دل کو ملول


کتنے طوفان اُٹھے ، کتنے حوادث اُبھرے

پھر بھی بدلا نہ ترے دستِ عطا کا معمول


تُو وہ محبُوب پیمبرؐ ہے کہ خالق کے حضور

تیری ہر بات پسندیدہ ، ادائیں مقبُول


روحِ فردوسِ بریں ، تیرے بدن کی مہکار

سرمۂ دیں افلاک ، ترے پاؤں کی دُھول


گُم تری ذات میں افلاک ، بقولِ اقباؔل

پھر بھی افلاک سے ہوتے رہے احکام وصُول ؟


آگیا کام شب و روز کا رونا آخر

ہوگئی بارگہہِ شِہؐ میں مری نعت قبُول


حاصِل نعت ہے شہرؔت کا یہ مصرع اعظؔم

” میں سگِ دنیا کہاں اور کہاں نعتِ رسُولؐ “

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

اے کاش کہ آجائے عطارؔ مدینے میں

سمجھا نہیں ہنُوز مرا عشقِ بے ثبات

آنکھیں سوال ہیں

سرِ میدانِ محشر جب مری فردِ عمل نکلی

سُنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رَسائی ہے

مِل جاون یار دیاں گلیاں اساں ساری خدائی کیہہ کرنی

چاہت مرے سینے میں سمائی ترےؐ در کی

شاہِ فلک جناب رسالت مابؐ ہیں

جز اشک نہیں کچھ بھی اب قابلِ نذرانہ

رکھ لیں وہ جو در پر مجھے دربان وغیرہ