حروفِ زر ناب کا حسیں انتخاب نکلے

حروفِ زر ناب کا حسیں انتخاب نکلے

مرے کفن سے نعوتِ شہ کی کتاب نکلے


وہ قاب قوسین کی حقیقت سمجھ گئے تھے

تو ایک اک کر کے درمیاں سے حجاب نکلے


پکارا جب بھی رسولِ اکرم کا نامِ نامی

سلگتے صحراؤں سے مہکتے گلاب نکلے


سفر میں تشنہ لبوں کے جب خشک ہونٹ دیکھے

تو انگلیوں سے تھمے ہوئے پنج آب نکلے


جو یاد آئیں مدینے کی مشکبار گلیاں

ہماری پلکوں سے آنسوؤں کے چناب نکلے


وہ ایک صورت ہے جس کی سیرت میں کامرانی

سوائے اس کے سبھی تصور سراب نکلے


ہمارا سینہ جو چیر کر دیکھ لیں فرشتے

ہمارے سینے سے دیدِ سرور کا خواب نکلے


شفاعتوں نے گناہ گاروں کو دی تسلی

برائے محشر جو شاہِ عالی جناب نکلے


قلم کو اشفاق نعت ہی کا غلام رکھا

سو لفظ میرے قلم سے سب لاجواب نکلے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

اس خوش نصیب شخص کو رب کا سلام ہے

روشنی روشنی ’’صراطِ نُور‘‘

یہ مرا قول نہیں یہ تو ہے غفار کی بات

دل و نظر میں لیے عشقِ مصطفیٰؐ آؤ

غُلامی میں رہے پُختہ تو اُمّیدِ صلہ رکھنا

میں لب کُشا نہیں ہوں اور محوِ التجا ہوں

امکان میں تجلّیِٔ واجب ہے کیا، نہ پوچھ

اُس کو کب ہو گل و گلزار عزیز

لازم ہے شہرِ ناز میں جائے تو جب اے دل

ہو گئی دور ہے رسوائی ترےؐ آنے سے