حشر کے روز پتہ ہے مجھے، کیا ہونا ہے

حشر کے روز پتہ ہے مجھے، کیا ہونا ہے

جلوہ گر عظمتِ محبوبِ خدا ہونا ہے


عظمتِ شاہ پہ جاں اپنی فدا ہونا ہے

’’ زندگی عشقِ پیمبر میں فنا ہونا ہے ‘‘


آج ہی مجھ سے جدا ہو جا درِ آقا پر

زندگی ! تجھ کو کسی دن تو جدا ہونا ہے


جیسا حق ہے تری توصیف و ثنا کا آقا

ہم ثنا کاروں سے کب حق وہ ادا ہونا ہے


یونہی پا سکتا نہیں کوئی بقا کی منزل

پہلے عشقِ شہِ والا میں فنا ہونا


تب کہیں آئیں گے سرکار کے نورانی قدم

دل کے پربت میں کہیں غارِ حرا ہونا ہے


عظمتِ سرورِ کونین کے آگے ہر دم

ہر کسی کا سرِ تسلیم جھکا ہونا ہے


میری جانب سےخطاؤں پہ خطائیں ہیں مگر

ان کی جانب سے عطاؤں پہ عطا ہونا ہے


کیوں نہ مانگوں میں نبی سےہیں وہی تو قاسم

جو بھی ہونا ہے انہی سے تو عطا ہونا ہے


میرے نزدیک تو ایماں کا تقاضہ ہے یہی

جان و دل سے شہِ عالم پہ فدا ہونا ہے


میرے سرکار کے قدموں سے لپٹ جا، جا کر

تجھ کو اے خاک ! اگر خاکِ شفا ہونا ہے


یہ وہ روضہ ہے جہاں پر نہیں غفلت کا گزر

دھڑکنوں کو بھی یہاں محوِ ثنا ہونا ہے


کیوں نہ پھرعشقِ پیمبر میں فنا ہو جائیں

جب شفیقؔ اپنے مقدر میں فنا ہونا ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

کیا فکر ہے ۔۔۔ جب تم کو میسر ہیں محمدؐ

جو نبی کا غلام ہوتا ہے

السّلام اے سبز گنبد کے مکیں

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

پنچھی بن کر سانجھ سویرے طیبہ نگریا جاؤں

اک میں ہی نہیں اُن پر قربان زمانہ ہے

سوہنیاں دا سردار مدینے والا اے

مختارِ جنت ساقئِ کوثر

تُو حبیبِ خدا خاتم الانبیاءؐ

ایک ایک قولِ پاکِ شہِ دوسرا ہے سچ