ہوئی کافور ظلمت نورِ حق کا بول بالا ہے

ہوئی کافور ظلمت نورِ حق کا بول بالا ہے

بفیضِ آمدِ سرور زمانے میں اُجالا ہے


عدوئے سنگ دل کو بھی بنا لے اپنا گرویدہ

مرے سرکار کا اخلاق ہی ایسا نرالا ہے


نبیؐ سے عشق کا دعویٰ اسی کا ہے فقط سچا

وہ جس نے اسوۂ سرکار پر ہستی کو ڈھالا ہے


حلیمہ سعدیہ تو ناز کر اپنے مقدر پر

تری آغوش میں رحمت کا پیکر آنے والا ہے


نہ کیوں اہلِ جہاں ممنونِ احسانِ پیمبر ہوں

جہاں کو بحرِ ظلمت سے شہِ دیں نے نکالا ہے


بسی ہے جس کے دل میں عظمتِ اصحابِ پیغمبر

وہی شیدا نبیؐ کا ہے، وہی اللہ والا ہے


مکرم ذات ہے وہ حضرتِ صدیقِ اکبر کی

نبیؐ کے بعد جس نے کشتیِ دیں کو سنبھالا ہے


عمر سے کیوں نہ ملتی مذہبِ اسلام کو رفعت

عمر کی ذاتِ اطہر مدعائے شاہِ والا ہے


رسولِ پاکؐ نے دو بیٹیاں دیں عقدِ عثماں میں

مقدر حضرتِ عثماں غنی کا کتنا اعلیٰ ہے


علی نے جب درِ خیبر اکھاڑا بول اٹھے کافر

یقیناً یہ خدا کا شیر ہے، حق کا جیالا ہے


وسیلے سے نبیؐ کے جب بھی احسؔن نے دعا مانگی

تو ہر طوفانِ آلام و بلا کو رب نے ٹالا ہے

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

ہے یہ فضلِ خدا، میں مدینے میں ہوں

دل اگر صلِ علیٰ کے ورد کا پابند ہو

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

"مَیں ، جو یائے مُصطفؐےٰ "

عالمِ قُدس کی توقیر بڑھانے والے

خالی رہوے نہ دامن مولا کِسے گدا دا

مجھ کو بھی ملے اذنِ سفر سیدِ سادات

قرآں کی زباں خود ہے ثنا خواں محمدﷺ

کی پُچھدا ایں حال نبی دیاں سیراں دے

سوئی ہوئی تقدیر جگائیں مِرے آقا