حضور آئے کہ سرکشوں میں محبتوں کا سفیر آیا
پکار اٹھا کاروانِ عالم امیر آیا امیر آیا
زمین مارے خوشی کے جھومے ہَوا ادب سے زمیں کو چومے
چھتوں پہ مہمان عرشِ اُترا گھروں میں بدرِ منیر آیا
بلا رہی ہے محبت اُس کی چلو کریں چل کے بیعت اُس کی
جو تھام لے گرتے آسماں کو وہ پیر وہ دستگیر آیا
اصول یکتا حیات یکتا عجیب ہے اُس کی ذات یکتا
کہ اُس کی یکتائی کے جلَو میں جلوسِ جمِ غفیر آیا
بھڑکتے شعلے بھی شبنمی ہیں شجر حجر خیر مقدمی ہیں
بشر فقید المثال آیا نبی عدیم النّظیر آیا
تصورِ عشق کائناتی تغیرات عمل ثباتی
مرید سلطانیاں بھی جس کی وہ فخرِ آدم فقیر آیا
مٹا دیئے سب غرور اُس نے عطا کیا وہ شعور اُس نے
کہ آپ اپنے مقابلے پر ہر آدمی کا ضمیر آیا
درندگی سے نجات پا کر چلا ہے انسان سر اُٹھا کر
تمدّنوں پر اُسی کا سایہ وہ آیا خیرِ کثیر آیا
حریفِ جاں کو پناہ دیدی فصیل زادوں کو راہ دیدی
دعائیں کیں اُس طرف روانہ‘ جدھر سے دشنام و تیر آیا
خدا نے بھیجا سلام جس پر اُتارا اپنا کلام جس پر
ہوا جریدہ تمام جس پر مظفر ایسا مُدیر آیا
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- امی لقبی