عشقِ احمد کا دیا دل میں جلائے رکھوں

عشقِ احمد کا دیا دل میں جلائے رکھوں

ہر گھڑی ذکر کی محفل بھی سجائے رکھوں


کاش قدموں میں بلا لیں مجھے سرکارِ جہاں

پھر اسی در پہ جبیں اپنی جُھکائے رکھوں


باغِ طیبہ سے چنوں روز ثنا کی کلیاں

خود کو بس نعت نگاری میں لگائے رکھوں


سبز گنبد کے تلے شام و سحر بیٹھی رہوں

دل حرم پاک کے جلووں سے سجائے رکھوں


جن گزر گاہوں سے گزرے تھے کبھی شاہِ امم

خاک اُن راہوں کی میں سُرمہ بنائے رکھوں


آپ کی یاد کی خوشبو مری سانسوں میں رہے

اُسی خوشبو سے دلِ ناز بسائے رکھوں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

یا رب ترے حبیب کی ہر دم ثنا کروں

زندگی کا قرینہ ملا آپ سے

ولائے سیّدِ سادات کانِ رحمت ہے

آقائے دو جہاں مرے سرکار آپ ہیں

احسان مجھ پہ ہے مرے خیرالانام کا

کیا خوب حاضری کے یہ امکان ہو گئے

ہے ساری کائنات میں طیبہ نگر حسیں

اے مدینے کے تاجدار سلام

ہو گییاں نے نظراں آج سرکار دِیاں

چُن چُن مَیں حرفاں دے موتی ہار بناواں نعتاں دے