استقامت کا معیار شبیر ہیں

استقامت کا معیار شبیر ہیں

جاں نثار و وفادار شبیر ہیں


شیرِ یزداں کی تلوار شبیر ہیں

ایک ضربِ اثردار شبیر ہیں


اُن کی عظمت کااندازہ کیسے کریں

ہم ہیں اِس پار اُس پار شبیر ہیں


آپ کے ہوتے مجھ کو نہیں کوئی غم

مشکلیں گر چہ بسیار شبیر ہیں


جسکی اونچائی جانیں فقط مصطفےٰ

ایسی رفعت کا مینار شبیر ہیں


ہے نبی کا لعابِ دہن خون میں

اس لئے بھی چمک دار شبیر ہیں


جو تھے کربل میں تم سے نبرد آزما

سب تمہارے گنہگار، شبیر ہیں


آپ کے حسن پر ہے زمانہ فدا

جلوۂِ حسنِ سرکار شبیر ہیں


پشت پر وقتِ سجدہ کبھی تو کبھی

’’راکبِ دوشِ سرکار شبیر ہیں‘‘


پھر اسے کیا غمِ حشر تڑپائے گا

جس کسی کے طرفدار شبیر ہیں


آپ جن پر چلے وہ ہمارے لیے

راستے سارے ہموار شبیر ہیں


پڑھیے ایمان کی تازگی کے لیے

آج بھی تازہ افکار شبیر ہیں


دشمنِ دینِ اسلام پر ہی اٹھی

وہ صداقت کی تلوار شبیر ہیں


عاشقِ اہلِ بیتِ نبی ہم شفیق ؔ

اپنی سرکار، سرکار شبیر ہیں

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

ترا جمال تصور میں آنہیں سکتا

دل کے جہاں کا حسن دمِ مصطفیٰؐ سے ہے

اپنے دربار میں آنے کی اجازت دی ہے

اک مصرعۂ ثنا جو کھلا

اے مرشدِ کامل صل علیٰ

حشر میں سارے نبیوں کے آئے نبی

تم کعبہِء دل تم قبلہء جاں

جس سے دونوں جہاں جگمگانے لگے

صبحِ ازل کا ہے وہ تارہ

جس کسی کی طرف وہ نظر کر گیا