جانِ ایماں ہے شہِ دیں کی عداوت سے گریز
باعثِ قہرِِ خدا ہے ان کی سنّت سے گریز
آڑ میں تبلیغ کی پرچار نجدیّت کا ہے
اس لیے ہم کو ہے تبلیغی جماعت سے گریز
جو رسول اللہ کی قدرت پہ شک ظاہر کرے
ہم پہ لازم ہے کریں ایسے کی صحبت سے گریز
احمدِ مختار کو کہتا ہے معمولی بشر
دیو کے بندے کو ہے ان کی شفاعت سے گریز
عیدِ میلاد النبی کو شرک و بدعت لکھ دیا
جانے کیوں نجدی کو ہے ذکرِ ولادت سے گریز
صاحبِ سبعِ سنابل نے سکھایا ہے یہی
ہر ولی کرتا ہے اظہارِ کرامت سے گریز
ہو زباں شیریں تو کیا مشکل ہے تسخیرِ قلوب
سنّتِ نبوی ہے استعمالِِ طاقت سے گریز
ہے کلام اللہ میں اظہار شانِ مصطفیٰ
نجدیو کیوں ہے تمہیں قرآں کی آیت سے گریز
عشقِ محبوب خدا ہو جس کے دل میں جا گزیں
کیوں نہ ہو نظمی اسے دنیا کی دولت سے گریز
جو نبی کے علم کو شیطان سے کم تر کہے
نظمی کرنا چاہیے ایسے کی صحبت سے گریز
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا