جب یادِ نبی میں اشکوں کے پلکوں پہ چراغاں ہوتے ہیں

جب یادِ نبی میں اشکوں کے پلکوں پہ چراغاں ہوتے ہیں

رحمت کی گھٹائیں اٹھتی ہیں تسکین کے ساماں ہوتے ہیں


طیبہ کے مسافر ہوتے ہیں جب رخصت انکی چوکھٹ سے

دل گریہ کناں اور پلکوں کے بھیگے ہوئے داماں ہوتے ہیں


ہو جان سے بڑھ کر پیار جنہیں محبوب مدینے والے سے

ایمان سے کہتا ہوں لوگو وہ صاحب ایمان ہوتے ہیں


اللہ نے کہا محبوب مرے امت ہے تری محبوب مجھے

امت کی بخشش کی خاطر کیوں آپ پریشاں ہوتے ہیں


آ آ کے تسلی دیتی ہے اللہ کی رحمت خود اُن کو

راتوں کے ڈھلتے سائے میں جو دل سے پشیماں ہوتے ہیں


اس جا پہ کرم کے پھول کھلیں وہ پاؤں جہاں اپنا رکھدیں

جاتے ہیں جدھر بھی میرے نبی ساتھ اُنکے گلستاں ہوتے ہیں


یہ جینا بھی کیا جینا ہے نظروں سے دور مدینہ ہے

قسمت کے دھنی ہیں جو جا کر سرکار کے مہماں ہوتے ہیں


گر جائیں جو ان کی نظروں سے وہ چاند بھی گہنا جاتے ہیں

جو انکی نظر میں آ جائیں ذرے بھی درخشاں ہوتے ہیں


اکبار وہ جن سے روٹھ گئے سمجھو کہ خدائی روٹھ گئی

راضی ہوں نیازی جن پہ نبی وہ بخت کے سلطان ہوتے ہیں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

وہ کرم بھی کیا کرم ہے وہ عطا بھی کیا عطا ہے

اُن کی نوازشات کا ہے میرے سَر پہ ہاتھ

کچھ آسرے کسب فیض کے ہیں، کچھ آئنے کشف نور کے ہیں

اوہ وی ویلا آوے یار میں مدینے ہوواں

ترے در توں جدا ہوواں کدی نہ یا رسول اللہ

مرے علو مرتبت منزہ مقام آقاؐ

اذاں میں اسمِ نبی سن لیا تھا بچپن میں

درد کا درماں قرارِ جاں ہے نامِ مصطفےٰؐ

پائی گئی ہے دوش پہ جن کے ، رِدائے خیر

گنہ آلود چہرے اشک سے ڈھلوائے جاتے ہیں