جوان کے نقشِ قدم پر ہیں سر جھکائے ہوئے

جوان کے نقشِ قدم پر ہیں سر جھکائے ہوئے

وہی تو منزل ِ مقصود کو ہیں پائے ہوئے


درِ نبیؐ پہ جلاتے ہیں آرزو کے چراغ

بساطِ زیست پہ دنیا سے مات کھائے ہوئے


ہے ذرے ذرے میں اب تک حضورؐ کا جلوہ

حقیقتیں ہیں ابھی تک نقاب اٹھائے ہوئے


پڑھو درود پڑھو ذوق و شوق کہتا ہے

کہ آج بزم میں سرکارؐ بھی ہیں آئے ہوئے


سنا کہ مژدہ عطاؤں کا سرخرو کردو

گناہ گار ہوں بیٹھا ہوں منہ چھپائے ہوئے


وہ خوش نصیب غمِ دوجہاں سے فارغ ہیں

جو ان کے لطف و کرم سے ہیں لَو لگائے ہوئے


متاعِ درودِ محمدؐ ہی مانگ لو رب سے

نظر اٹھاؤ ہیں بادل کرم کے چھائے ہوئے


ہمارے پا س کوئی اَور چیز بھی تو نہیں

ہم اپنے اشک ہی پلکوں پہ ہیں سجائے ہوئے


ہے ان کی یاد سے آباد میرا دل خالدؔ

ہیں میرے دیدہ و دل دونوں جگمائے ہوئے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

میں نازشِ مہر و ماہ چہرے کی

رحمتوں کے اثر میں رہتے ہیں

کبھی سوئے غریباں بھی نظر ہو یا رسول اللہ

جب تک جمال شاہؐ امم جلوہ گر نہ تھا

ہر درد کا ہوتا ہے درمان مدینے میں

طیورِ فکر جو ان کے خیال تک پہنچے

مدینے کی فضا ہے اور میں ہوں

وجد میں شاہ اگر ہے تو گدا کیف میں ہے

ہم صبح و شام کرتے ہیں مدحت رسول کی

ہونا ہے گر شمار صفِ کامیاب میں