کاش ہم کو بھی مدینے کے نظارے ہوتے
دم نکلتا تو محمد ﷺ کے دوارے ہوتے
وہ بھی دن آتا کہ کھلتیں غم دل کی کلیاں
دیکھتے جا کے مدینے کی نورانی گلیاں
ہم مقدر کے جو ہاتھوں میں نہ ہارے ہوتے
بیٹھے ہوتے کبھی روضے کی گھنی چھاؤں میں
والہانہ کبھی رکھ دیتے جبیں پاؤں میں
یوں بھی کچھ روز مدینے میں گزارے ہوتے
خوب آنکھوں سے لگاتے ترے در کی جالی
چومتے نظروں سے گنبد کی کبھی ہریالی
جو بلندی پہ کبھی بخت ہمارے ہوتے
مری قسمت میں نہیں گرچہ مدینے جانا
خواب میں کر دو کرم یا نبی اللہ اتنا
آنکھ کھلتی تو مدینے کے کنارے ہوتے
وجہ تخلیق دو عالم ہیں بس اک آپ حضورؐ
ہوتا مقصود نہ گر آپ کی عظمت کا ظہور
آسماں ہوتا نہ یہ چاند ستارے ہوتے
ہم گنہ گاروں کا کوئی نہ سہارا ہوتا
کبھی ممکن ہی نہ بخشش تھی ہماری واللہ
خوف محشر بھی نہیں ڈر بھی نہیں دوزخ کا
رحمت کون و مکاں کون ہے اک تیرے سوا
سے دوزخ میں کوئی جائے تمہارے ہوتے
غم کے ماروں کی نیازیؔ کوئی لیتا نہ خبر
کشتیٔ زیست بھی ہو جاتی طوفانوں کی نذر
ان کی رحمت کے نہ گر ہم کو سہارے ہوتے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی