کرم کے راز کو علم و خبر رکھتے ہیں

کرم کے راز کو علم و خبر رکھتے ہیں

جو لوگ گنبدِ خضرا نظر میں رکھتے ہیں


جنونِ عشق محمد جو سر میں رکھتے ہیں

عجب مقام جہانِ ہنر میں رکھتے ہیں


نبی کے نام کی نسبت سے ہم سے عاصی بھی

دُعائیں اپنی حدودِ اثر میں رکھتے ہیں


خدا شناسی کی منزل میں پیروانِ رسول

چراغِ علم و عمل رہگذر میں رکھتے ہیں


جو اہل دل ہیں مدینے کی سمت جاتے ہوئے

متاعِ نعت بھی زادِ سفر میں رکھتے ہیں


کہاں ہم اور کہاں مدحت رسول صبیح ؔ

اِک ارتعاش سا قلب و جگر میں رکھتے ہیں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

اے راحتِ جاں باعثِ تسکین محمدؐ

پھر مدینہ دیکھیں گے، پھر مدینے جائیں گے

اللہ رے تیرے در و دیوار,مدینہ

بھیج سکوں کا کوئی جھونکا

بیشک میرے مولا کا کرم حد سے سوا ہے

دل تڑپنے لگا اشک بہنے لگے

حیدرؓ و زہراؓ کا ثانی کون ہے

خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی

حقیقت میں وہ لطفِ زندگی پایا نہیں کرتے