کرم ان کا نہیں تو اور کیا ہے

کرم ان کا نہیں تو اور کیا ہے

جو بے مانگے گدا کو مل رہا ہے


میں کیا جانوں ہوں شاہانِ جہاں کو

میرے دامن میں صدقہ آپ کا ہے


جو میرے چاہنے والے ہیں لاکھوں

کسی مردِ قلندر کی دعا ہے


نشہ اتنا نہیں دیکھا کسی میں

نشہ جتنا نبی کی نعت کا ہے


ادب کا ہاتھ سے دامن نہ چھوٹے

کہ یہ دربارِ محبوب خدا ہے


نبی کا نام لیوا ہوں ازل سے

یہی اک مختصر میرا پتہ ہے


میں مشکل میں کسی کو کیوں پکاروں

مجھے میرے نبی کا آسرا ہے


ہوئی اس پر نبی کی چشم رحمت

جو محفل میں نبی کی آ گیا ہے


کریمی ہے کریم دو جہاں کی

مجھے جو کچھ ملا جتنا ملا ہے


میں جو کچھ ہوں وہ سب کچھ جانتے ہیں

میں کیا ہوں اور میری اوقات کیا ہے


نظر سب پر ہے اور سب کی خبر ہے

میرا آقا شہ ارض و سما ہے


خبر کر دو یہ میرے حاسدوں کو

میرے لج پال کی مجھ پر عطا ہے


بجھا سکتے نہیں طوفاں اس کو

دیا اُن کے کرم کا جل رہا ہے


حضور اپنے ہی دروازے پہ رکھنا

نیازی کی یہی اک التجا ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

مشک و عنبر میں ہے نہ چندن میں

کیا ہم کو شکایت ہو زمانے کے ستم سے

یوں مرے اللہ نے عظمت بڑھائی آپ کی

نور حق آپؐ میں کتنا گُم ہے

خوشبو ہمیں طیبہ کی سنگھانے کے لیے آ

حبِ سر تاج رسولﷺ دل میں بسا کر دیکھو

خوب انداز ہیں طیبہ کے بیابانوں کے

زبان صبحوں میں کھولوں

اسوہ مصطفیٰؐ ملا ہم کو

مدح سرا قرآن ہے جس کا تم بھی اسی کی بات کرو