خاکِ طیبہ مرے سینے سے لگادی جائے

خاکِ طیبہ مرے سینے سے لگادی جائے

ہاں بشارت مجھے جنت کی سنادی جائے


محفلِ نعت پھر اک بار سجا دی جائے

قلبِ دشمن کی جلن اور بڑھا دی جائے


ہوش آئے گا نہ دنیا کی دواؤں سے مجھے

نعلِ سرکارِ دو عالم کی ہوا دی جائے


جس پسینے کی مہک مکے کی گلیوں میں رچی

وہی خوشبو مجھے اک بار سنگھا دی جائے


ابنِ خطّاب کو فاروق بنایا جس نے

وہی تصویر مرے دل میں بٹھا دی جائے


عشق گر جرم ہے پھانسی کی سزا دو مجھ کو

درِ محبوب پہ لیکن یہ سزا دی جائے


یا نبی مجھ کو بھی حاصل ہے غلامی کا شرف

میری نعتوں میں بھی تاثیرِ رضا دی جائے


عشقِ احمد کے سوا اور نہ کچھ سوچ سکے

قلبِ نظمی کو کچھ اس طور جِلا دی جائے


حشر کے روز میں آقا کی سناؤں نعتیں

رب کہے نظمی کو فردوس میں جا دی جائے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

ساری دُنیا توں نرالا اے مدینے والا

صد شکر کہ میں گہری نظر لے کے چلا ہوں

ہم رسولِ مَدَنی کو نہ خدا جانتے ہیں

نازشِ فن اور ادب کی چاشنی نعتِ نبی

کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے

عبدِ عاجز کو ہے شوقِ رقمِ نعتِ رسولؐ

سارے سوہنیاں تو سوہنا

کوئی عاصی نئیں میں ورگا میں مناں یا رسول اللہ

ذرہ ذرہ زمیں کا درخشاں ہوا

پئے مرشد پیا سوز گداز آقا عطا کردو