کونین کے سردار کا در مانگ رہا ہوں

کونین کے سردار کا در مانگ رہا ہوں

سامانِ سفر، اذنِ سفر مانگ رہا ہوں


سنگِ درِ سرکار کی کرتا ہوں دعائیں

گویا کہ ابھی بابِ اثر مانگ رہا ہوں


بوسہ گہِ تقدیس کو چھو پاؤں نظر سے

رحمان سے وہ بختِ نظر مانگ رہا ہوں


اس در کی گدائی کا نرالا ہی مزا ہے

ملتا ہے بنا مانگے مگر مانگ رہا ہوں


گھیرے ہوئے ہے ہجرِ کی گھنگھور اماوس

اک وصلِ زیارت کی سحر مانگ رہا ہوں


محشر میں گناہوں کی کڑی دھوپ تنے گی

شافع سے شفاعت کے شجر مانگ رہا ہوں


ناعت کا لقب پاؤں سرِ حشر خدا سے

مدحِ شہِ والا کا ہنر مانگ رہا ہوں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

شاخِ مژگاں پر کھلا حرفِ ثنا

کوثر کی بات ہو کہ شرابِ طہور کی

وہ جہاں ہیں مِری نِسبت ہے وہاں سے پہلے

چانن ہے عرشاں فرشاں تے نورِ یزدان محمد دا

یارسولَ اللہ! مجرم حاضِرِ دربار ہے

کوئی بھی نہ محبوبِ خُدا سا نظر آیا

آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں

اید ویلا مڑ نئیں اوناں نہ سنگتاں پیاریاں

تیری آمد ہوئی نُور و نور سی

وہ بصیرت اے خدا! منزل نما ہم کو ملے