میں نہ وہابی ‘ نہ قادیانی‘ نہ میں بہائی ‘ نہ خارجی ہوں

میں نہ وہابی ‘ نہ قادیانی‘ نہ میں بہائی ‘ نہ خارجی ہوں

مِرا عقیدہ ہے صاف و واضع بفضل ربی محمدّی ہوں


نہ مجہتد ہوں ‘ نہ میں ولی ہوں ‘ میں سالکِ مسلکِ نبی ؐ ہوں

جو مومنوں سے میں متفق ہوں تو منکروں کی کھلی نفی ہوں


میں نعت کہتا ہوں اس حقیقت سے کوئی بھی بے خبر نہیں ہے

نہ بزمِ یاراں ہے مجھ سے شاکی ‘ نہ غیر محفل میں اجنبی ہوں


نہ کوئی قارون میرا محسن نہ کوئی حاتم مِرا مربّی

مرے خزانے میں کیا نہیں ہے کہ میں گدائے در نبیؐ ہوں


ہیں میری نعتوں سے محفلوں میں عقیدتوں کے چراغ روشن

بفیضِ سرکارِ نور پیکر میں ایک مینارِ روشنی ہوں


میں اپنے رُتبے سے باخبر ہوں میں اپنی قیمت بھی جانتا ہوں

بڑوں بڑوں سے بھی میں بڑا ہوں کہ خاک پائے سگِ نبی ہوں


میں طابع دینِ مصطفیٰ ﷺ ہوں میں بندہء مرضی خدا ہوں

میں اور کتنی دفعہ بتاؤں ‘ محمدی بس محمدی ہوں


نہ مجھ کو دعوئٰ برتری ہے ‘ نہ صیدِ احساس کمتری ہوں

نہ شیخِ فن ہوں ‘ نہ منتہی ہوں ‘ نہ زیر تعلیم مبتدی ہو ں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

مرے آقا! یہ مجھ پہ آپ کا احسان ہو جائے

حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

گھٹا نے منہ چھپا لیا گھٹا کو مات ہو گئی

مِری آنکھوں کی ضد ہے یا مکینِ گنبدِِ خضرا

ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

پیشانی سے چوموں گا سنگِ درِ جانانہ

مکے چار چوفیرے پکار پے گئی والی دو جہان دا آیا اے

دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

روز عاشور کی یہ صبح عبادت کی گھڑی

سارے نبیوں کا سروَر مدینے میں ہے