محفلِ سیدِ کونین جہاں ہوتی ہے
رحمت و نور کی برسات وہاں ہوتی ہے
ذکرِ سرکار سے تر جس کی زباں ہوتی ہے
اس پہ پھرکوئی مصیبت بھی کہاں ہوتی ہے
میرے سرکار سمجھتے ہیں ضرورت میری
کچھ بتانے کی ضرورت ہی کہاں ہوتی ہے
جس کا کھاتے ہیں اسی شاہ کے گُن گاتے ہیں
کوئی شے رسمِ وفا بھی تو میاں ہوتی ہے
جس گلستاں میں کھلا کرتے ہیں گلہائے درود
اس گلستاں سے بہت دور خزاں ہوتی ہے
اب کہیں سوزِ بلالی نہیں پایا جاتا
مسجدوں میں تو فقط آج اذاں ہوتی ہے
پیڑ آتے ہیں سلامی کے لئے جھکتے ہیں
مصطفےٰچاہیں تو کنکر کو زباں ہوتی ہے
ہوتی رہتی ہے نہیںتھمتی کرم کی بارش
اور سرکار جہاں چاہیں وہاں ہوتی ہے
ذکر تو کیجئے اس نورِ مجسم کا شفیقؔ
تیرگی دیکھئے پھر کیسے نہاں ہوتی ہے
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا