میری زندگی کا مقصد جاہ و حشم نہیں ہے
غم مصطفی سلامت مجھے کوئی غم نہیں ہے
یہ حضور کا کرم ہے مرے دن گزر رہے ہیں
وہ مہرباں نہیں تو میرا بھرم نہیں ہے
ان کی نوازشوں کو کیسے رقم کروں میں
جو ملا ہے مل رہا ہے بخدا وہ کم نہیں ہے
اچھا ہوں یا برا ہوں ترے در پہ آ پڑا ہوں
الحمد غیر در پر میرا سر یہ خم نہیں ہے
سرکار کے کرم نے کس کو نہیں نوازا
ایسا نہیں ہے کوئی جس پر کرم نہیں ہے
مجھ کو قدم قدم پر تیری یاد نے سنبھالا
مرے ساتھ ساتھ ہو تم یہ بھی تو کم نہیں ہے
کیسے ہو آنا جانا اُس میں شہ حرم کا
دل یادِ مصطفیٰ سے جب تک حرم نہیں ہے
توصیف مصطفیٰ کا حق جو ادا کرے وہ
دنیا کے پاس ایسا کوئی قلم نہیں ہے
کھل جائیں باب اُس پر بھی کرم نوازیوں کے
یاد شہ امم میں جو آنکھ نم نہیں ہے
وہ جانتے ہیں سب کچھ اظہار کیا کروں میں
بخدا مرے تو دم میں اتنا بھی دم نہیں ہے
فرش زمیں ہو یا کہ عرش بریں نیازی
وہ ہے کیا جو مصطفیٰ کے زیر قدم نہیں ہے
جبریل کہہ رہے تھے سرکار سے نیازی
تجھ سا کوئی جہاں میں تیری قسم نہیں ہے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی