مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

بڑا مسرور ہے دل بھی یہ پل کتنے سہانے ہیں


اُنہی کے ذکر سے ساری بہاریں لوٹ آتی ہیں

بڑی پُر نور گھڑیاں ہیں بڑے رنگیں زمانے ہیں


یہی چاہت ہے مدت سے کبھی ہو جائے گی آمد

درودِ پاک کے گجروں سے اپنے گھر سجانے ہیں


ازل سے ہی سہارا ہے مجھے آقا کی یادوں کا

خوشا میرے بھی دامن میں محبت کے خزانے ہیں


انہی کے نام سے ہی نور کی خیرات ملتی ہے

یہ پیارا نام لے کر ہی نصیب اپنے جگانے ہیں


گزر جائے حیاتِ ناز سب آقا کی مدحت میں

عقیدت کے حسیں موتی مجھے چن چن لٹانے ہیں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

میں نوری عنایت کی نظر لے کے چلا ہوں

توں ایں شاہ کُل مدینے والیا

وہ دن بھی بھلا ہوگا قسمت بھی بھلی ہوگی

اوجِ آسماں کو بھی زیرِ آسماں دیکھا

جد تیکر اے دُنیا رہنی قائم تے آباد

اجاڑ کب سے پڑا ہے اداس غرفۂ دل

آنکھوں کا تارا نامِ محمد

ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا

تازہ امنگ جاگی دِل عندلیب میں

میرے دل دا توں لے جا نی قرار میرے کولوں