ملتا ہے وہاں کیا کیا رحمت کے خزانے سے

ملتا ہے وہاں کیا کیا رحمت کے خزانے سے

یہ راز تو کُھلتا ہے دربار میں جانے سے


الحمد ! پہنچ پائے ہم سے بھی مواجہ پر

بس چین ملا ، اُن کو احوال سُنانے سے


گھرمیں تو پڑھیں لیکن سرکارْ کے روضے پر

سینے میں پڑی ٹھنڈک اِک نعت سُنانے سے


جب نام ترا آقا ! آتا ہے مرے لب پر

بجتے ہیں مرے دِل میں پُر کیف ترانے سے


سرکارِ مدینہ سے عشق اور محبت کا

ہوتا ہے دَرُوں روشن اِک دیپ جلانے سے


دیکھا ہے زمانے میں توقیر بڑھی اُن کی

کرتے ہیں مودّت جو آقا کے گھرانے سے


اِس دہر میں چھائی تھی اِلحاد کی تاریکی

ہر چیز ہوئی روشن سرکار کے آنے سے


وہ دور اخوّت کا پھر لَوٹ کے آئے گا

سینوں میں عداوت کی یہ آگ بُجھانے سے


ہے پاس نہیں کُچھ بھی جس سے کہ اُجالا ہو

ہوگی یہ لحد روشن سرکار کے آنے سے


یُوں گھر میں جلیل اپنے مہکار سی رہتی ہے

حلقاتِ درود اِس میں ہر روز سجانے سے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

کبھی رنج آئے نہ آلام آئے

مرحبا وہ روضۂ سرکار اللہُ غنی

جب عشق تقاضا کرتا ہے تو خود کو جلانا پڑتا ہے

حق نما حق صفات آپ کی ذات

جس کا نہ کوئی سایہ نہ ہمسر ملا مجھے

پئے مرشد پیا سوز گداز آقا عطا کردو

تسکینِ مساکیں ہے تِری شانِ کریمی

حُسنِ حبیب دوجہاں یوں ہَے تصوّرات میں

اے کاش مہ گنبد خضری نظر آئے

عطا کر دو مدینے کی اجازت یارسولَ اللہ