مجھے دے کے وصل کی آرزو

مجھے دے کے وصل کی آرزو

تو نے رات ساری جگا دیا


کبھی وصل دے کے ہنسا دیا

کبھی ہجر دے کے رُلا دیا


تیری یاد میں جو میں گُم ہوا

میرے کعبہ سامنے آ گیا


رُخ یار اصل نماز ہے

مجھے کعبے نے یہ بتا دیا


مجھے دے کے وصل آرزو

تو نے رات ساری جگا دیا


کہ یہ تیری نظر کا کمال ہے

مجھے پوچھتے ہیں بڑے بڑے


میں تو سنگِ راہِ نیاز تھا

تو نے اِک نگینہ بنا دیا


کبھی تم سے تھا جو نہ آشنا

تو میں قید غم سے آزاد تھا


مجھے غم سے بڑھ کے سکوں ملا

تو نے درد ایسا عطا کیا

شاعر کا نام :- نامعلوم

کیا ہے ہجر کے احساس نے اداس مجھے

وجودِ خاک خورشیدِ نبّوت کی

پھر اُٹھا وَلولۂ یادِ مُغِیلانِ عرب

محفلِ دہر کا پھر عجب رنگ ہے

ولادتِ رسُولؐ

نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے

رسولِ خدا کی غلامی میں کیا ہے

دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے

مِل جاون یار دیاں گلیاں اساں ساری خدائی کیہہ کرنی

ساری خوشیوں سے بڑھ کر خوشی ہے