نہیں ہے دعوےٰ مجھے کوئی پارسائی کا

نہیں ہے دعوےٰ مجھے کوئی پارسائی کا

سہارا بس ہے ترے در سے آشنائی کا


تمہارے چاہنے والوں میں کمتریں ہوں مگر

مری جبیں پہ نہیں داغ بے وفائی کا


امیر سارے جہاں کے اسے سلام کریں

ہے جس کے ہاتھ میں کاسہ تری گدائی کا


ترے کرم نے کیا سب سے بے نیاز مجھے

نہیں ہے خوف زمانے کی کج ادائی کا


جہاں پہ اور دوا کوئی کارگر نہ ہوئی

اثر پڑا ہے ترے نام کی دُہائی کا


ظہوریؔ روز بلا کے مجھے وہ سنتے ہیں

صلہ ملا ہے مجھے میری خوش نوائی کا

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

بات وہ پیرِ مغاں نے مجھے سمجھائی ہے

دعا ہے پھر مدینے کا سفر ہو

مجھ پہ بھی کرم ہو کبھی سرکارِ مدینہ

مزے لیتا ہوں دریُوزہ گری کے

پھر گنبدِ خَضرا کی فضاؤں میں بُلالو

آئو ہم پیرویِ سیرتِ سرورؐ کر لیں

اترے ملک زمینِ حرم پر تیرے حضور

ہونٹ جب اسمِ محمد کے گہر چومتے ہیں

عرب دی ریت وچ تردے ستارے یاد آگئے نے

اللہ بڑا، اُس کی رضا بھی ہے بڑی چیز