نور پھیلا رچی بسی خوشبو

نور پھیلا رچی بسی خوشبو

آئی جس دم پیمبری خوشبو


بولتے ہی مشامِ جاں مہکا

مرحبا نامِ پاک کی خوشبو


میرے سرکار کے مدینے میں

کوچہ کوچہ گلی گلی خوشبو


مشک و عنبر کو مات دیتی ہے

اے شہِ ذوالمنن تِری خوشبو


ان کے تن سے پسینہ پھوٹ پڑا

اور ہر سو بکھر گئی خوشبو


راستے بھی مہکنے لگتے تھے

تھے سراپا مِرے نبی خوشبو


پڑھ کے دیکھو کبھی کلامِ شفیقؔ

پاؤ گے تم زبان کی خوشبو

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

تیرے ہر اک کمال کو تَفرید گَہ کہوں

کونین کے گوشے گوشے پر

دلِ مُضطر کی حالت ہے تُجھے معلوم یا اللہ

دل کی بنجر کھیتی کو آباد کرو

پہنچوں اگر میں روضۂ اَنور کے سامنے

جو قافلہ بھی مدینے کی سمت جائے گا

مجھے دَر پہ اپنے بُلا طَیبہ وا لے

ماہِ میلاد ہے اک دعا مانگ لیں

تمہارا کرم یاحبیبِ خدا ہے

وارفتگانِ شوق و عزیزانِ باوفا