تمہارا کرم یاحبیبِ خدا ہے

تمہارا کرم یاحبیبِ خدا ہے

مدینے کی جانب چلا قافِلہ ہے


میں راہِ مدینہ کے قُربان جاؤں

کہ اِس میں سُرور اور مزہ ہی مزہ ہے


مدینے میں ’’قفلِ مدینہ‘‘ لگاؤں

کرم آپ کیجے ارادہ مِرا ہے


عبادت سے خالی ہے اعمالنامہ

سِوا آنسوؤں کے مرے پاس کیا ہے


نہ کیوں تم پہ اِترائے مجرِم تمہارا

یہاں تو عَدو بھی اماں پا رہا ہے


نہیں جانتا یہ مدینے کے آداب

یہ تیرا ہے تیرا بھلا یا بُرا ہے


مجھے دیجئے اشکبار آنکھ آقا

یہ دل سخت، پتّھر سے بھی ہو گیا ہے


پِلا دے چھلکتا ہوا جامِ الفت

نظر تیری جانب لگی ساقیا ہے


مدد کیلئے ناخدا آئیے اب

سفینہ ہمارا بھَنور میں پھنسا ہے


شہا قافِلے کے سبھی زائروں نے

مرے ساتھ عہدِوفا کرلیا ہے


تمہیں لاج عہدِ وفا کی رکھو گے

کہ ابلیسِ مردود پیچھے لگا ہے


شفَاعت کی خیرات لینے کو عطارؔ

لئے قافِلہ عنقریب آ رہا ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

شاہِ ہُدا ہیں شاہِ مدینہ

ہر خیر بھلائی نیکی نوں کہہ دینا بدعت ٹھیک نہیں

وہ پھُول تو ہے کہ جس سے بہار باقی ہے

چھٹ گئی گردِ سفر مل گئی کھوئی منزل

شان ان کی ملک دیکھتے رہ گئے

میں سوجاؤں یا مصطفٰے کہتے کہتے

ہم فقیروں پر سخی کا پھر کرم ہونے کو ہے

شہرِ سرکار میں جینے کی دعائیں مانگوں

خدا نے اس قدر اُونچا کیا پایہ محمد کا

دلِ تپیدہ ہے صحرا تو چشمِ تر دریا