وہ پھُول تو ہے کہ جس سے بہار باقی ہے

وہ پھُول تو ہے کہ جس سے بہار باقی ہے

چہکتی بُلبُلیں ہیں لالہ زار باقی ہے


اس انتظارِ مسلسل میں عُمر بِیت چلی

نہ جانے کِتنا ابھی انتظار باقی ہے


اِدھر بھی اِک نگہِ لُطف ہو مرے ساقی

کہ تشنہ کام یہی بادہ خوار باقی ہے


ترے حبیبؐ کی عزّت پہ سَر کٹے میرا

یہ آرزو مِرے پروردگار باقی ہے


یہ سارا ساقئ کوثر کا فیض ہے تائبؔ

سبو تو خالی ہیں ‘ لیکن خمار باقی ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

لب پہ نام حضور آئے گا

خیالوں میں اُن کا گزر ہو گیا ہے

’’کوچۂ خوشبو میں ہوں اور قریۂ نکہت میں ہوں‘‘

سراجا منیرا نگار مدینہ

ہیں اہل محبت نغمہ سرا

دِل اس ہی کو کہتے ہیں جو ہو ترا شیدائی

عرشِ عُلیٰ سے اعلیٰ میٹھے نبی کا روضہ

دنیا میں جو فردوس عطا ہم کو ہوئی ہے

دل کے حرا میں ‘ اپنے خدا سے

آپؐ کی صورتِ اطہر سے ضیا ڈھونڈیں گے